Posts

ہم شرمندہ ہیں

 پاکستان اپنے  ہمسایہ ایران  سے سستا گیس بجلی پیٹرولیم نہیں خرید سکتا اور ہر سال 14 اگست ایسے دھوم دھام سے مناتا ہے جیسے ہم نے پوری دنیا فتح کر لی ہو ایرانی صدر ہم شرمندہ ہیں  ہم ابو جی (امریکہ) کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے  یہ  پاک مسلح افواج  کے بزدل جرنیل  بزدل آرمی چیف صرف اپنی عوام پر ظلم کرسکتے ہیں ان کا جینا دوبھر کر سکتے ہیں انہیں قرضوں کے بوجھ تلے دبا سکتے ہیں  کوئی بنیادی سہولت فراہم نہیں کر سکتے ہیں آئین قانون توڑ سکتے ہیں  زرخیز زمینوں کو اجاڑ سکتے ہیں ہر شہر میں چھاونیوں کے نام پر قبضے کر سکتے ہیں  ڈیفینس کی آڑ میں صنعت وتجارت کر سکتے ہیں عام آدمی کو جب چاہے مار سکتے ہیں سرکاری و نجی ملازمتوں پر برجمان ہو سکتے ہیں    دوسروں کے سامنے اپنی پینٹ اتار دیتے ہیں لیکن ملک کے لیے لڑ نہیں سکتے ہیں  کونسا آرمی چیف ملک کا دفاع کرتے شہید ہوا سپاہی ہی قربانی کا بکرا بنتے ہیں کس سپاہی کو ڈیفینس میں کوٹھی بنگلہ پلاٹ ملا ؟ بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ کون کھاتا ہے ؟ عوام تعلیم صحت کی سہولتوں سے کیوں محروم ہیں؟ عوام پر مہنگائی  ٹیکسوں کا بوجھ کیوں ہے؟ گائوں شہروں کی سڑکیں تاحال  کیوں کچی ٹوٹ پھ

ارض قدس کی پکار

 شام رات میں ڈھلی تو اپنے دامن میں شفق پہ سرخی پھیلاتے سورج اور راہ دکھاتے  ستاروں کے جھرمٹ کو بھی سمو گئی !  افق پہ جگمگاتے یہ تارے ارض قدس کی تازہ شہداء ہیں اور شہداء بھی بھلا کون ؟  شیخ اسماعیل ہانیہ کے تین سعادت مند بیٹے اور انہی کے تین کڑیل پوتے ۔۔۔۔ زھر اگلتی لپلپاتی زبانوں  نے خدا کے اس بندے پہ طعن کیا طنز کیا تضحیک کی کہ دوسروں کو بچوں کو مروانے والے اپنی اولادیں سنبھال کر رکھتے ہیں ہانیہ نے کیسی کیسی باتیں سنیں روح کو گھائل کرنے والے  نشتر زہر آلود زبانوں سے نکلتے رہے ہانیہ زخمی مسکراہٹ کیساتھ سب سنتے رہے یہاں تک حالیہ طوفان الاقصیٰ معرکے میں انکے بیٹوں پوتوں اور نواسی سمیت خاندان کے ساٹھ افراد اسی طرح قربان ہوئے جیسا کہ دیگر قدسی ۔۔۔۔ مشعل و ہانیہ قطر میں رھتے ہیں مگر  کیوں رھتے ہیں یہ جانے بغیر درھم و دینار کے بندے طاغوت کے پرستار اور مادیت کے شرک سے آلودہ اذھان کہتے تھے مشعل و ہانیہ اپنی اولادوں کیساتھ پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں مگر جانتے بوجھتے چپ رھتے کہ شیخ یاسین ارض قدس پہ نشانہ بنے تو پرچم الرنتیسی نے سنبھالا جی وہی شیر دل رنتیسی جس نے کشادہ پیشانیوں والے لاکھوں قدسیوں

شیخ محمود آفندی

 ترکی میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علماء نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دیہات اور گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینی شروع کی  جب وہاں کے لوگ فوج  کو آتے دیکھتے تو فورا بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے  یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے بلکہ کھیتی باڑی میں مشغول ہیں  ان طالبعلم بچوں میں شیخ محمود آفندی نقشبندی صاحب بھی شامل تھے، حضرت نے یوں دینی تعلیم کی تکمیل کی اور فراغت کے بعد یہی سلسلہاپنے گاؤں جاری رکھا ،  اسی دوران حضرت آفندی کے دو خلفاء شہید کیے گیے تو حالات کے تناظر میں حضرت آفندی نے وہاں سے شہر کا رخ کیا جہاں ایک قدیم  مسجد تھی وہاں رہتے ہوئے حضرت  نے چالیس سال تک دین کی تدریس کا کام جاری رکھا۔  تقریبا اٹھارہ سال تک حضرت آفندی کے پیچھے کوئی نماز پڑھنے کیلئے تیار نہیں تھا اٹھارہ سال کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے اور حضرت آفندی سے فیضیاب ہوتے گئے ۔ آج جب اسی مسجد میں اذان ہوتی ہے تو جوق درجوق لوگ نماز کیلئے اس مسجد میں آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں جو حضرت آفندی جیسے علماء کی محنت اور اخلاص کا نتیجہ ہے  - ترکی سے جب خلافت عثمانی

ختم نبوت

 ‏پنجاب کے کسی دیہات میں ایک خوبرو قادیانی لڑکی  شادی کے لئے ایک فوجی آفیسر کو پیش کی گئ فوجی آفیسر نے  شادی کی حامی بھرنے سے پہلے ایک شرط رکھی کہ وہ کبھی بھی قادیانیت قبول نہیں کرے گا  قادیانیوں نے اس کی شرط مان لی اور  لڑکی فوجی آفیسر کے ساتھ روانہ کردی  شادی کے بعد رشتے ناطے میں آنا جانا لگا رہا اور نرمی سے فوجی آفیسر کو مائل بھی کیاجاتا رہا ایک دن قادیانیوں کے پوپ تشریف فرما تھے اور انہوں نے فوجی آفیسر سے کہا کہ آپ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے نہ مانیں لیکن ہماری ایک بات قبول کیجیۓ ، آپ استخارہ کریں کہ آیا نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہے یا نہیں ؟ مرزا غلام احمد قادیانی سچا نبی ہے یا نہیں ؟ فوجی کو زہر پلایا جا رہا تھا مگر اسے پیتے ہوۓ احساس تک نہیں ہوا کہ وہ زہر کا پیالا چڑھا چکا ہے  اس نے استخارہ کرنے کی حامی بھر لی ، رات کو استخارہ کیا تو خواب میں نظر آیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی بنا ہوا ہے اور اس کے آس پاس لوگ جمع ہیں  صبح اٹھا تو اپنے کیے ہوۓ استخارے کے مطابق قادیانیت پر ایمان لے آیا  محض خود ایمان لاتا تو اتنا مسئلہ نہیں تھا اس نے باقاعدہ مرزے کی نبوت کی دعوت د

تم قاتل ہو ملک و قوم کے قاتل

 تم قاتل ہو ملک و قوم کے قاتل ‏اس شخص کا نام حسن ناصر تھا۔ اس شخص کا بھی نو مئی یا جی ایچ کیو سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کا دہشتگردی کیخلاف جنگ سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ اسے تو 1960 میں ہی مار دیا گیا تھا۔ شاہی قلعے کی دیواریں آج بھی اسکی چیخوں کی شدت سے گونجتی ہیں۔ اس پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اسکی ماں نے اسکی لاش کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ حسن ناصر کو اسکی ماں نے وصول نہیں کیا تھا اور اسے لاہور کی ایک لاوارث قبر میں دفنا دیا گیا تھا۔  اس شخص کا جرم کیا تھا؟ کیا کوئی سیاسی نظریہ رکھنا بھی جرم ہوسکتا ہے؟ کیا کمیونسٹ ہونا بھی جرم ہے؟ بلکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان تو ان چند ایک جماعتوں میں سے تھی جنہوں نے 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کیا۔ قیام پاکستان کی مہم کو اٹھایا۔ برعکس ان لوگوں کے جو کہتے رہے شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے اور ان کی اولادیں آج تمہاری گود میں بیٹھی ہیں۔  تم آج کے قاتل نہیں ، تم نے صرف بنگلہ دیش میں نہتے لوگ نہیں ماررکھے ، تم شروع دن سے ، ہر اس جگہ جہاں تمہیں موقع ملا، تم وہاں قاتل ہو تم ملک و قوم کے قاتل !!!

ماہ رمضان کی انتیس (29)خصوصیات​

ماہ رمضان کی انتیس (29)خصوصیات​ (01) ماہ رمضان ایک نعمت ہے: کسی مسلمان کے لئے یہ سب سے بڑی سعادت مندی اور خوش نصیبی کی بات ہے کہ اسے رمضان جیسا بابرکت مہینہ مل جائے اوراگر اس ماہ میں نیکیاں کمانے اور رب کو راضی کرنے کی توفیق مل جائے تو اس سے بڑی نعمت اور کیاہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ رب العالمین نے رمضان کے بیان میں فرمایا:” وَلِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ھَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ “ اوراللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پراس کی بڑائیاں بیان کرواوراس کا شکراداکرو۔ (البقرۃ:185)یعنی تم اللہ کی بڑائی وکبریائی،عظمت وشان بیان کرو کیونکہ اس نے تمہیں رمضان جیسی دولت سے نوازا تا کہ تم اپنے رب کو راضی کرسکو۔ (02) رمضان کا مہینہ صرف امت محمدیہ کو عطا کیا گیا اور اللہ کا یہ ایک احسان عظیم ہے: امت محمدیہ کو رب العالمین نے رمضان مہینہ عطا کر کے ان پر احسان عظیم کیا ہے اور یہ احسان ا س ناحیے سے ہے کہ امت محمدیہ کے لوگوں کی عمریں تو کم ہیں مگر وہ اس مہینے میں اور بالخصوص طاق راتوں میں عبادت وبندگی کر کے سالانہ83 سال چار ماہ کے برابر نیکیاں کرکے اجروثواب کما کر اپنے سے پہلوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں ب