ماہ رمضان کی انتیس (29)خصوصیات​


ماہ رمضان کی انتیس (29)خصوصیات​


(01) ماہ رمضان ایک نعمت ہے:

کسی مسلمان کے لئے یہ سب سے بڑی سعادت مندی اور خوش نصیبی کی بات ہے کہ اسے رمضان جیسا بابرکت مہینہ مل جائے اوراگر اس ماہ میں نیکیاں کمانے اور رب کو راضی کرنے کی توفیق مل جائے تو اس سے بڑی نعمت اور کیاہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ رب العالمین نے رمضان کے بیان میں فرمایا:” وَلِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ھَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ “ اوراللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پراس کی بڑائیاں بیان کرواوراس کا شکراداکرو۔ (البقرۃ:185)یعنی تم اللہ کی بڑائی وکبریائی،عظمت وشان بیان کرو کیونکہ اس نے تمہیں رمضان جیسی دولت سے نوازا تا کہ تم اپنے رب کو راضی کرسکو۔

(02) رمضان کا مہینہ صرف امت محمدیہ کو عطا کیا گیا اور اللہ کا یہ ایک احسان عظیم ہے:

امت محمدیہ کو رب العالمین نے رمضان مہینہ عطا کر کے ان پر احسان عظیم کیا ہے اور یہ احسان ا س ناحیے سے ہے کہ امت محمدیہ کے لوگوں کی عمریں تو کم ہیں مگر وہ اس مہینے میں اور بالخصوص طاق راتوں میں عبادت وبندگی کر کے سالانہ83 سال چار ماہ کے برابر نیکیاں کرکے اجروثواب کما کر اپنے سے پہلوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں بلکہ ان سے بھی آگے جنت میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں! اب ذرا سوچئے کہ پچھلی امتیوں کے مقابلے میں امت محمدیہ کے افراد کی عمریں کتنی قلیل ہیں،پچھلی امت کے لوگ جہاں 500/600/1000/2000 سال جیا کرتے تھے وہیں پر احادیث کی روشنی میں امت محمدیہ کے ایک فرد کی عمر 60 سال سے 70 سال کے درمیان ہے۔اب اگر دیکھا جائے تو دونوں امتیوں کے افرادکے عمروں کے مابین کتنی بُعد اور دوری ہے،کہاں 2000سال اور کہاں 60 سال،مگر امت محمدیہ کے اوپر اللہ احسان وکرم دیکھئے کہ اس نے اس امت محمدیہ کو ماہ رمضان دے کرکے پچھلی امتیوں کے عمروں کے برابر نیکیاں کمانے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ جانے کا موقع مہیا کر دیا ہے مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان کی عمر 60 سال ہے اور وہ انسان 15 سال کی عمر میں بالغ ہوا توگویا کہ اس نے بالغ ہونے کے بعد 45 رمضان پائے اب اگر اس نے ہر سال اہتمام کے ساتھ پورے ماہ عبادت وبندگی کی ہوگی تو اس میں طاق راتیں بھی ہوں گی تو گویا کہ اس نے تین ہزار نو سو پندرہ (3915)سال کے برابر اللہ کی عبادت وبندگی کی۔سبحان اللہ،ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء

(03) ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے:

(04) ماہ رمضان دلوں سے وسوسہ اورحسد، بغض وعداوت کو ختم کردیتا ہے:

رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس کی خاصیت ہے کہ یہ مہینہ دلوں کوبغض وحسدسے پاک وصاف کردیتا ہے جیسا کہ سیدنا علیؓ اور ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:” صَوْمُ شَھْرِ الصَّبْرِ وَثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَھْرٍ یُذْھِبْنَ وَحَرَ الصُّدُوْرِ“ صبر کے مہینے یعنی رمضان میں فرض روزہ اور اسی طرح ہر ماہ میں تین روزہ رکھنے سے دل کی بیماریاں شیطانی وسوسے،کینہ وکپٹ،بغض وعداوت،حسدوجلن،غیظ وغضب ان ساری چیزوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

(صحیح الترغیب والترھیب للألبانیؒ:1022،صحیح الجامع للألبانیؒ:3804)

(05) ماہ رمضان میں ہی غزوۂ بدر پیش آیا:

رمضان ہی وہ مہینہ جس کے اندر اسلام کا بول بالا ہوا اور کفر وشرک کو منہ کی کھانی پڑی وہ بھی اس طرح سے کہ صرف تین سو تیرہ نے ایک ہزار لشکر جرار کو شکشت فاش دی تھی،گویا کہ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کے اندر عزت وسربلندیاں عطا کی جاتی ہیں۔

(06) ماہ رمضان میں ہی سب سے زیادہ رب کی برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے:

رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس کے اندرسب سے زیادہ رب کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے جیساکہ سیدنا ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ” أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَھْرٌ مُبَارَکٌ فَرَضَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکُمْ صِیَامَہُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ تمہارے پاس رمضان کا برکت والا مہینہ آگیا ہے جس کے اندر اللہ تعالی نے تمہارے اوپر روزے فرض کئے ہیں۔ (نسائی:2106،صحیح الجامع للألبانیؒ:3519،الصحیحۃ:1868)

(07) آپ ﷺ صرف ماہ رمضان کی آمد پر صحابۂ کرام کو بشارت دیتے تھے:

رمضان کتنا عظیم مہینہ ہے اور ایک انسان کی زندگی میں رمضان کی کتنی اہمیت ہے اگر اس بات کا اندازہ لگانا ہوتو پھر اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے سال میں کسی بھی ماہ کے آنے پر آپﷺ اس بات کی خاص جانکاری نہ دیا کرتے تھے کہ فلاں مہینہ آچکاہے مگر جب رمضان کا مہینہ آتا تو آپﷺ صحابۂ کرام کوبالخصوص اس ماہ کے آمد کی بشارت دیتے ہوئے نیکیوں پر ابھاراکرتے تھے جیسا کہ انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ آیا تو آپﷺ نے فرمایا:” إِنَّ ھَذَا الشَّھْرَ قَدْ حَضَرَکُمْ وَفِیہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَھْرٍ مَنْ حُرِمَھَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّہُ وَلَا یُحْرَمُ خَیْرَھَا إِلَّا مَحْرُومٌ “ بلاشبہ یہ بابرکت مہینہ تمہارے پاس آیا ہے(اسے غنیمت جانو) اس ماہ میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،جو شخص اس رات کی خیر وبرکت سے محروم رہا وہ ہر طرح کی خیرو برکت سے محروم رہا اور اس کی خیر وبرکت سے صرف وہی محروم رہتا ہے جو ہرقسم کی خیر سے محروم ہو۔ (صحیح ابن ماجہ للألبانیؒ:1333،صحیح الترغیب للألبانیؒ:990)

(08) سب سے زیادہ فرشتے ماہ رمضان میں ہی زمین پر اترتے ہیں:

رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس ماہ کے شب قدر کی راتوں میں سب سے زیاد ہ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ” إِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ فِی الْأَرْضِ أَکْثَرُ مِنْ عَدَدِ الْحَصَی “ بلاشبہ قدر کی رات میں زمین پر فرشتوں کی تعداد کنکریوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔(الصحیحۃ للألبانیؒ:2205)

(09) ماہ رمضان میں روئے زمین پر روح الامین کا نزول:

ماہ رمضان کے طاق راتوں میں جہاں کثرت سے فرشتوں کو نزول ہوتا ہے وہیں پر رب العالمین نے اپنے کلام مقدس کے اندر اس بات کی بھی جانکاری دی ہے کہ رمضان مہینے کے طاق راتوں میں جبرئیل امین کا بھی نزول ہوتا ہے،فرمان باری تعالی ہے: ” تَنَزَّلُ الْمَلَآئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلّ أَمْرٍ“ شب قدر کی راتوں میں ہرکام کو سرانجام دینے اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح الامین جبرئیل اترتے ہیں۔(القدر:4)سبحان اللہ رمضان کے طاق راتوں میں اتنے مکرم ومقرب فرشتے کا روئے زمین پر نازل ہونا یہ ماہ رمضان کی سب سے عظیم خوبی ہے۔

(10) قرآن کریم میں 12 مہینوں میں سے صرف رمضان ہی کا نام آیاہے:

(11) رمضان ہی کے مہینے میں قرآن کو نازل کیا گیا:

رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس کی عظمت کے لیے تو بس اتنی سی بات ہی کافی تھی کہ قرآن کا نزول تمام مہینوں کو چھوڑکر صرف اسی ماہ میں ہوایہی وجہ ہے کہ رمضان مہینے کا نام لے کر رب ذوالجلال والاکرام نے فرمایا: ” شَھْرُرَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْھُدَی وَالْفُرْقَانِ “ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کو اتاراگیاجولوگوں کو ہدایت کرنے والاہے اور جس میں ہدایت کی اورحق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ:185)



(12) تمام مقدس کتابیں رمضان ہی کے مہینے میں نازل کی گئیں:

ماہ رمضان کی برکت وعظمت کا اندازہ اگر لگانا ہو تواس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ اس ماہ میں صرف قرآن کا ہی نزول نہیں ہوا بلکہ جتنی بھی مشہورومعروف آسمانی کتابیں اور صحیفے ہیں ان تمام کا نزول اسی ماہ رمضان میں ہوا جیسا کہ سیدنا واثلۃؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:” أُنْزِلَتْ صُحُفُ إِبْرَاھِیْمَ أَوَّلَ لَیْلَۃٍ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَتِ التَّوْرَاۃُ لِسِتٍّ مَضَیْنَ مِنْ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَ الْإِنْجِیلُ لِثَلَاث عَشْرَۃَ مَضَتْ مِنْ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَ الزَّبُورُ لِثَمَانِ عَشْرَۃَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَ الْقُرْآنُ لِأَرْبَعٍ وَعِشْرِینَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ “ صحیفۂ ابراہیم کو رمضان کی پہلی رات میں نازل کیاگیا،تورات اس وقت نازل کی گئی جب رمضان کے چھ ایام گذرگئے تھے،انجیل تب نازل کی گئی جب رمضان کے تیرہ ایام گذرچکے تھے،زبوراس وقت نازل کی گئی جب رمضان کے اٹھارہ ایام گذرچکے تھے،اور قرآن اس وقت نازل کیاگیاجب رمضان کے چوبیس ایام گزرچکے تھے۔ (الصحیحہ للألبانی:1575)

(13) ہزارمہینوں سے بہتررات ماہ رمضان میں ہی ہے:

اس سلسلے میں سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:” إِنَّ ھَذَا الشَّھْرَ قَدْ حَضَرَکُمْ وَفِیہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَھْرٍ مَنْ حُرِمَھَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّہُ وَلَا یُحْرَمُ خَیْرَھَا إِلَّا مَحْرُومٌ “ رمضان میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے جو شخص اس رات کی خیروبرکت سے محروم رہاوہ ہرطرح کی خیربرکت سے محروم رہا اور اس کی خیروبرکت سے صرف وہی محروم رہتاہے جو بدنصیب ہو۔(صحیح ابن ماجہ للألبانی:1333)

(14) رمضان ہی کے مہینے میں سال بھر کے موت وحیات اورتمام وسائل زندگی کے فیصلے کئے جاتے ہیں:

ماہ رمضان کی یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جس سے ماہ رمضان کی عظمت واہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس ماہ کے شب قدرکی رات میں پورے سال کے احکام ومسائل یعنی کہ موت وحیات کے فیصلے،رزق کی تفصیلات،وسائل زندگی وغیرہ کے فیصلے کولوح محفوظ سے اتارکر فرشتوں کے حوالے کردیاجاتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:” إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنْذِرِینَ،فِیھَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ “ یقینا ہم نے اسے بابرکت رات میں اتاراہے بے شک ہم ڈرانے والے ہیں،اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیاجاتاہے۔ (الدخان:4)

(15) رمضان کے مہینے میں اعلان کرنے کے لئے فرشتے کی تقرری کی جاتی ہے:

(16) رمضان کے مہینے میں ہررات اللہ تعالی لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتاہے:

ماہ رمضان کی عظمت وخصوصیت تو دیکھئے کہ رب العالمین نے ماہ رمضان کو ایسا بابرکت بنایا ہے کہ اس ماہ کے تیسوں دن اور چوبیس گھنٹے ہرآن وہرلمحہ نوری مخلوق یہ صدادیتی ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اسی لیے اے انسانو!تم نیکیوں میں آگے بڑھو اور اور برائیوں سے توبہ کرلو،ساتھ ہی رمضان ہی وہ بابرکت مہینہ ہے جس کے اندر سب سے زیادہ رب العالمین لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے کہ : ”۔۔۔۔۔۔وَنَادَی مُنَادٍ یَا بَاغِیَ الْخَیْرِ أَقْبِلْ وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّہِ عُتَقَاءُ مِنْ النَّارِ وَذَلِکَ فِی کُلِّ لَیْلَۃٍ “ اوررمضان کے مہینے میں ہردن آوازلگانے والاآوازلگاتاہے کہ اے خیرطلب کرنے والو!نیک کام کے لئے آگے بڑھواوراے برے کام کی طلب رکھنے والو! برے کاموں سے رک جاؤ،اورہررات اللہ تعالی لوگوں کو جہنم سے آزادکرتاہے۔(صحیح ابن ماجہ للألبانی:1642) وفی روایۃ عن جابر مرفوعا:” إِنَّ لِلَّہِ عِنْدَ کُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءَ وَذَلِکَ فِی کُلِّ لَیْلَۃٍ “بے شک اللہ تعالی ہرروز افطاری کے وقت لوگوں کو جہنم سے آزادکرتاہے اورایساہررات کو ہوتاہے۔(صحیح ابن ماجۃ للألبانی:1332)

(17) رمضان کے مہینے میں ہردن ورات میں دعاقبول کی جاتی ہے:

ماہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس کے ہرآن اور ہرہرلمحے میں کی گئی دعاؤں کو قبول کرنے کا وعدہ رب العالمین نے بزبان رسالت سنادی ہے،سیدنا ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ: ” إِنَّ لِلَّہِ عُتَقَاءَ مِنَ النَّارِ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ - یعنی فی رمضان – وَإِنّ َلِکُلِّ مُسْلِمٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ “بے شک اللہ تعالی رمضان کے ہردن اوررات میں لوگوں کو جہنم سے آزادکرتاہے اور ماہ رمضان کے ہردن ورات میں ہرمسلمان کے لئے ایک ایسی دعا کا وقت ہے جسے قبولیت سے نوازاجاتاہے۔ (صحیح الترغیب للألبانی:1002،صحیح الجامع للألبانیؒ:2169)

(18) رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ثواب ہے:

ماہ رمضان رب العالمین کا امت محمدیہ کو دیا ہوا ایک عظیم تحفہ ہے کیونکہ ماہ رمضان کو رب العالمین نے ایسا بنایا ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنے پر حج کے برابر اجروثواب ملتا ہے جیسا کہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:” فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیہِ تَعْدِلُ حَجَّۃً “ رمضان میں عمرہ کرنے کا اجروثواب حج کے برابرہے۔(مسلم:1256)

(19) رمضان میں عمرہ کرنا آپ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابرثواب ہے:

سبحان اللہ! رمضان کی یہ کیسی عظمت ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنے والا ویسے ہی اجروثواب پاتا ہے جیسے کہ آپﷺ کے ساتھ حج کرنے پر اجروثواب ملتا ہے،اس بارے میں ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کا فرمان ہے:” فَإِنَّ عُمْرَۃً فِی رَمَضَانَ تَقْضِی حَجَّۃً أَوْ حَجَّۃً مَعِی “ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابرہے۔(بخاری:1863)

(20) رحمت الٰہی کا دروازہ کھول دیاجاتاہے:

(21) آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں:

(22) جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں:

(23) جہنم کے دروازے بندکردئے جاتے ہیں:

(24) سرکش شیطانوں کو جکڑ دیاجاتاہے:

مذکورہ بالا تمام باتوں کا بیان مندرجہ ذیل احادیث کے اندر کی گئی ہے:

(أ) عن أبی ھریرۃؓ مرفوعا: ” إِذَا کَانَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَھَنَّمَ وَسُلْسِلَتْ الشَّیَاطِینُ “ جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو رحمت کا دروازہ کھول دیاجاتاہے اور جہنم کا دروازہ بندکردیاجاتاہے اور شیاطین کو جکڑدیاجاتاہے۔

(ب) عن أبی ھریرۃؓ مرفوعا: ” إِذَا دَخَلَ شَھْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَھَنَّمَ وَسُلْسِلَتْ الشَّیَاطِینُ “ جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو آسمان کا دروازہ کھول دیاجاتاہے اور جہنم کا دروازہ بندکردیاجاتاہے اور شیاطین کو جکڑدیاجاتاہے۔

(ج) عن أبی ھریرۃؓ مرفوعا: ” إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَھَنَّمَ وَسُلْسِلَتْ الشَّیَاطِینُ “ جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو جنت کا دروازہ کھول دیاجاتاہے اور جہنم کا دروازہ بندکردیاجاتا ہے اور شیاطین کو جکڑدیاجاتاہے۔ (بخاری:1899،3277مسلم:1079،2495،2496)

(25)رمضان کا مہینہ گناہوں کے مٹ جانے کا سبب ہے:

رمضان مہینے کی ایک عظیم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس ماہ میں عبادت و بندگی کو اگرانجام دیتے ہوئے گذارے اور پھرپورے سال تک کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتے تو یہ مہینہ ایک مسلمان کے تمام صغیرہ گناہوں کومٹادیتا ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:” اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ وَرَمَضَانُ إِلَی رَمَضَانَ مُکَفِّرَاتٌ مَا بَیْنَھُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ“ پانچوں نمازیں،ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک اپنے اپنے درمیان ہونے والے گناہوں کو مٹادیتاہے جب کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیاجائے۔(مسلم:233)

(26) رمضان میں روزہ رکھنا پورے گناہوں کے مٹ جانے کا سبب ہے:

رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس کی عظمت تو یہ ہے کہ اس ماہ میں روزے رکھنے سے رب العالمین پچھلے ایک سال کے تمام صغیرہ گناہوں کو مٹادیتا ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے: ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ “ جس نے بھی رمضان میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے روزے رکھے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (بخاری:2014،مسلم:760)

(27) رمضان کے مہینے میں روزے رکھنا دس مہینوں کے برابر روزہ رکھنا ہے:

رمضان کی خصوصیت تو دیکھئے کہ اس ماہ میں تیس یا انتیس روزے رکھنے کا اجروثواب دس ماہ کے برابرروزہ رکھنے کااجروثواب ملتا ہے جیسا کہ ماہ شوال کے اندرچھ روزہ رکھنے کا اجروثواب بتاتے ہوئے آپﷺنے کہا کہ:” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ“ جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویاکہ اس نے ساراسال ہی روزہ رکھا۔(مسلم:1164) کیونکہ رمضان کے روزے دس ماہ کے برابر ہے جیسا کہ مسنداحمد کی ایک حدیث کے اندراس بات کا ذکرموجود ہے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے تو ایک ماہ دس ماہ کے برابرہے۔۔۔۔۔(مسنداحمد:21906)

(28) رمضان میں قیام کرنا پورے گناہوں کے مٹ جانے کا سبب ہے:

ماہ رمضان کی خصوصیت اور ہم امت محمدیہ کے اوپر اللہ کا فضل وکرم تو دیکھئے کہ اس ماہ میں قیام کرنے سے بھی تمام پچھلے صغیرہ گناہوں کو مٹادیا جاتا ہے جیسا کہ ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:” مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ “ جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔(صحیح ابوداؤد للألبانی:1241)

(29) رمضان میں امام کے ساتھ قیام کرنے پرساری رات قیام کرنے کا اجر وثواب ملتا ہے:

سبحان اللہ! یہ رمضان کی کیسی خصوصیت ہے کہ اگرکوئی شخص اس ماہ میں امام کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھتا ہے تو اسے ساری رات قیام کرنے کے برابراجروثواب ملتا ہے جیسا کہ ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک مرتبہ آپﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺکاش آپ ہمیں پوری رات قیام فرماتے تو آپﷺ نے فرمایا کہ:” مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّی یَنْصَرِفَ فَإِنَّہُ یَعْدِلُ قِیَامَ لَیْلَۃٍ “ جو شخص امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک قیام کرتا ہے تو اس کا وہ قیام اجروثواب میں پوری رات کے قیام کے برابر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ:1327،ابوداؤد:1375،اسنادہ صحیح) 

Comments