ارض قدس کی پکار

 شام رات میں ڈھلی تو اپنے دامن میں شفق پہ سرخی پھیلاتے سورج اور راہ دکھاتے  ستاروں کے جھرمٹ کو بھی سمو گئی ! 

افق پہ جگمگاتے یہ تارے ارض قدس کی تازہ شہداء ہیں اور شہداء بھی بھلا کون ؟  شیخ اسماعیل ہانیہ کے تین سعادت مند بیٹے اور انہی کے تین کڑیل پوتے ۔۔۔۔

زھر اگلتی لپلپاتی زبانوں  نے خدا کے اس بندے پہ طعن کیا طنز کیا تضحیک کی کہ دوسروں کو بچوں کو مروانے والے اپنی اولادیں سنبھال کر رکھتے ہیں ہانیہ نے کیسی کیسی باتیں سنیں روح کو گھائل کرنے والے  نشتر زہر آلود زبانوں سے نکلتے رہے ہانیہ زخمی مسکراہٹ کیساتھ سب سنتے رہے یہاں تک حالیہ طوفان الاقصیٰ معرکے میں انکے بیٹوں پوتوں اور نواسی سمیت خاندان کے ساٹھ افراد اسی طرح قربان ہوئے جیسا کہ دیگر قدسی ۔۔۔۔

مشعل و ہانیہ قطر میں رھتے ہیں مگر  کیوں رھتے ہیں یہ جانے بغیر درھم و دینار کے بندے طاغوت کے پرستار اور مادیت کے شرک سے آلودہ اذھان کہتے تھے مشعل و ہانیہ اپنی اولادوں کیساتھ پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں مگر جانتے بوجھتے چپ رھتے کہ شیخ یاسین ارض قدس پہ نشانہ بنے تو پرچم الرنتیسی نے سنبھالا جی وہی شیر دل رنتیسی جس نے کشادہ پیشانیوں والے لاکھوں قدسیوں کے جلو  میں بندوق لہرا کر کہا تھا کہ " یہی آزادی کا راستہ ہے " بس ان جملوں کی ادائیگی کے بعد چند گھنٹے چند دن یا چند ہفتے گزرے ہونگے کہ رنتیسی آگ اگلتے ہوا میں تیرتے آھنی پرندے کا نشانہ بنے یہ وہی آگ ہے جو قندھار تا قدس یکساں برسی اور اس میں جلنے والے کامیاب و کامران قرار پائے ۔۔۔۔

بس یہی وہ لمحے تھے جب فیصلہ ہوا کہ قیادت مخفی اور محفوظ ملک میں رکھی جائیگی  سو دوحہ مسکن قرار پایا دل و دماغ میں نفرت کا الاؤ بھڑکانےوالے یہ سچ جان کر بھی گونگے شیطان بنے رھے کہ مشعل کے جسم میں زھر داخل کیا گیاتھا یہاں تک کہ اردن کی حکومت کو مداخلت کرنا پڑی اور غاصب ریاست نے تریاق فراہم کیا ان میں سے کسی کو دبئی میں نشانہ بنایا گیا  کسی کو استنبول میں مارنے کے منصوبے ترتیب پائے اور ہاں کون جانتا ہے کہ نوے کی دھائی میں غاصب ریاست کے دارلحکومت کو استشہادیوں کے فدائی حملوں سے لرزا دینے والے یحییٰ سے لیکر ضیف اور العرووری سے لیکر جنین کے خوبصورت نوجوانوں تک کتنے ہی  دلیر ہیں جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آزادی کی جنگ لڑتے رہے کتنے ہی رب کے حضور پہنچ گئے کتنے شیر زندان میں قید پڑے ہیں اور نجانے کتنے آزادی کے خواب آنکھوں میں سجائے مغربی کنارے سے خان یونس کی گلیوں تک  جوان مردی سے لڑتے ہیں 

ہانیہ کو جب تین بیٹوں اور تین پوتوں کے غاصب ریاست کے حملے میں جان سے گزر جانے کی خبر دی گئی تو نہایت حوصلے استقامت اور ہمت کیساتھ یہ خبر سنکر انہوں نے کہا کہ ارض قدس پہ بہنے والوں کے خون سے میرے بیٹوں کا خون  بالاتر نہیں  ہم سب ایک ہیں میں نے اس راہ میں خاندان کے ساٹھ افراد کھوئے ہیں مگر غاصب ریاست مجھے جھکا نہیں سکتی کیونکہ یہ جبیں خدا کے آگے ہی جھکتی ہے 

کہیں بہت دور تورا بورا کے پہاڑوں میں ایک سرد اور برف سے ڈھکی  رات کے اختتام پہ ہوئی فجر کی نماز کے بعد اجنبیوں کی محفل میں ہوئی تعزیت کا منظر اور مکالمہ  یاد آگیا جب طویل قامت یمنی نژاد سعودی  نے اپنے مصری ساتھی اور ڈاکٹر  سے کہا کہ تمہارا اکلوتا بیٹا اور اہلیہ گردیز کے سفر میں امریکی بمباری میں کام آگئے مگر سننے والے نے حوصلے سے کہا کہ اس امت کے لاتعداد نوجوان قربان ہوگئے میرا بیٹا بھی انہی میں سے ایک ہے 

تاریخ اسلامی کے انمٹ نقوش ہر قریہ بستی کوچہ کہسار شہر صحراء میں موجود ہیں 

بیشک ، یہ خاک و خون میں نہائی پیشانیاں ہی کامیاب قرار پائی ہیں

Comments