ٹیلی ویژن

 ٹیلی ویژن

ٹیلی ویژن یا دور نمائی یا بعید نما (Television) ٹیلی ویژن ایک ایسی برقیاتی اختراع (Electronic Device) کو کہا جاتا ہے کہ جو متحرک (یا ساکت) تصاویر (جنکو عام طور پر منظرہ (Video) بھی کہ دیا جاتا ہے) کو بشمول سماعیہ (Audio) کے وصول کر کہ اپنے تظاہرہ (Screen) پر قابلِ بصری و سماعتی مشاہدے کی خوبیوں کے ساتھ پیش کرسکتی ہے۔ اگر دقیق النظری کے تحت بعید نما کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اصل میں برقناطیسی اشعاع (Electromagnetic Radiation) کی مدد سے متحرک تصاویر کو آواز کے ساتھ نشر اور وصول کر نے کا ایک مکمل نظام ہوتا ہے جس کو بعید نما نظام کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بھی ذکر آیا کہ اس بعید نما یا ٹیلیوژن نظام کی یہ تصاویر و آواز، ارسال و صول کرنے کے لیے برقیاتی اشارے (Electronic Signals) استعمال کیے جاتے ہیں، یہ برقیاتی اشارے عام طور پر کسی ایک منتخب مقام سے نشر کیے جاتے ہیں جس کو مرکزِ بعید نما یا Television Center اور یا بعید نما مستقر (Television Station) بھی کہا جاتا ہے۔

آسان وضاحت 

ٹیلی ویژن پر جو تصویر (متحرک یا ساکن) نظر آتی ہے وہ اصل میں انسانی دماغ کی چند فعلیاتی (Physiological) خصوصیات سے استفادہ کر کہ پیش کی جاتی ہے۔ انسان کا دماغ بنیادی طور پر کسی بھی نظر آنے والی شے سے کوئی نا کوئی خاکہ اخذ کرنے کی جانب مائل ہوتا ہے اور یہی بعید نما پر تصویر کے دکھائی دینے کا ایک اہم پہلو ہے۔ جب دماغ کے سامنے کوئی ایسی تصویر یا خاکہ آئے کہ جو بہت سے چھوٹے چھوٹے ذرات یا نکات سے بنایا گیا ہو تو دماغ اس کی جزیات میں جانے سے قبل ان ذرات کی ترتیب سے ایک عمومی خاکہ اخذ کرتا ہے، بس اسی اصول کے تحت بعید نما پر مختلف چھوٹے چھوٹے ذرات یا دانوں کو ملا کر ایک تصویر بنائی جاتی ہے اور بعید نما کے پردے (Screen) پر بنائے گئے یہ چھوٹے چھوٹے نکات سائنس کی زبان میں عکصر (Pixel) کہلائے جاتے ہیں۔ دراصل یہ عکصر یا دانے آپس میں اس قدر قریب قریب ہوتے ہیں کہ دماغ کچھ فاصلے سے دیکھنے پر ان کو الگ الگ نکتے کے طور پر نہیں لیتا بلکہ ان سے ابھرنے والے عمومی تاثر یا خاکے کو محسوس کرتا ہے، جبکہ اگر انہی نکات یا عکاصر (Pixels) کو اس قدر بڑا کر دیا جائے کہ ان کے درمیان فاصلہ پیدا ہو جائے اور یا پھر آنکھ کو پردے کے بالکل نزدیک کر کے دیکھا جائے تو دماغ ایک ایک عکصر کو الگ الگ تجزیہ کرے گا اور یوں کوئی تصویر نظر نہیں آئے گی۔

انسانی دماغ (Brain) کی ایک اور فعلیاتی خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ انتہائی تیز رفتاری سے نگاہوں کے سامنے سے گذرنے والے ساکت اور جدا جدا (مگر نسبتاً مماثلت رکھنے والے اور ایک ہی واقعے کے ) مناظر کا جدا جدا احساس اجاگر کرنے کی بجائے ان مماثل مگر جدا مناظر کو ایک تسلسل کی صورت میں انسانی ادراک (Cognition) تک پہنچاتا ہے اور یوں ساکت اور جدا جدا مناظر سے ایک مسلسل اور متحرک منظر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسی خصوصیت سے فائدہ اٹھا کر کسی ایوان عکس اور بعید نما پر کسی بھی واقعے کر مختلف عکس تیز رفتاری سے یکے بعد دیگرے گزار کر ایک متحرک تصویر یا منظر کا احساس پیدا کیا جاتا ہے۔

ٹیلی ویژن کےپروگرام

ٹیلی ویژن کے پروگراموں کی اہم خوبی یہ ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ میں دیکھنے کی سہولت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ریڈیو سے زیادہ مقبول ہو چکا ہے اور بیش تر معاملات میں ریڈیو سے سبقت لے گیا۔ ٹیلی ویژن میں جدید تکنیکی ترقی کی وجہ سے بیک وقت کئی چینل نشر کیے جا سکتے ہیں۔ یہ چینل زمننی (terrestorial) ہو سکتے ہیں جو صرف ایک اینٹینا کی مدد سے دستیاب ہوتے ہیں۔ کچھ چینل کیبل چینلوں کے زمرے میں آتے ہیں، جن میں کیبل آپریٹر کا بڑا دخل ہوتا اور وہ حسب مزضی مقامی ضرورت کے پروگرام نشر کر سکتا ہے۔ کچھ چینل سیٹلائٹ چینل ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ دائرے تک لوگوں کی جانب سے دیکھے جا سکتے ہیں مگر ان کی نشر کے لیے خصوصی انتظامات یا کنکشن کی ضروت ہوتی ہے۔ جدید دور میں دو طرح کے ٹیلی ویژن کنکشن عام ہیں: ایک ڈی ٹی یچ اور دوسرے کیبل آپریٹر۔

ڈی ٹی ایچ: ڈی ٹی ایچ ڈائیکٹ ٹو ہوم کا مخفف ہے۔ اس کے تحت ایک اینٹینا اور سیٹ اپ باکس کی مدد سے سیدھے طور پر ڈی ٹی ایچ خدمت فراہم کنندہ لوگوں کے گھر پر پروگرام نشر کرتا ہے۔

کیبل: اس میں ایک مقامی کیبل آپریٹر پہلے پروگرام کی نشریات اپنی جگہ پر پاتا پے، پھر یہ پروگرام اور لوگوں کے یہاں پہنچتے ہیں۔

ٹیلی ویژن کے پروگرام کی اقسام

ٹی وی پر خبریں، تجزیاتی پروگرام، ڈاکیومنٹری، ڈرامے، سیریل، ٹاک شوز، کھیل، ٹاک شوز اور اسی طرح کے کئی پروگرام نشر ہوتے ہیں۔

ٹاک شوز کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ کے 2018ء کے ایک انکشاف کے مطابق سابق صدر بارک اوباما ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کے ٹاک شو کی میزبانی کے لیے بات چیت میں مصروف بتائے گئے۔ 

صحت اور ٹیلی ویژن پروگرام

جاپان کی اوساکا یونیورسٹی کی جانب سے ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ سے زائد یا لگاتار کئی گھنٹوں تک ٹی وی دیکھنے سے آپ 'پلمونری امبولزم' کے مرض کا شکار ہو سکتے ہیں، جس کے باعث انسانی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔'پلمونری امبولزم' پھیپھڑوں کی مرکزی شریانوں میں بننے والے خون کے لوتھڑوں کو کہا جاتا ہے جو عموماً شریانوں میں خون کی گردش سست کر دیتے ہیں یا رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ اس مرض کے باعث کوئی شخص مر بھی سکتا ہے۔


Comments