Posts

Showing posts from April, 2024

ہم شرمندہ ہیں

 پاکستان اپنے  ہمسایہ ایران  سے سستا گیس بجلی پیٹرولیم نہیں خرید سکتا اور ہر سال 14 اگست ایسے دھوم دھام سے مناتا ہے جیسے ہم نے پوری دنیا فتح کر لی ہو ایرانی صدر ہم شرمندہ ہیں  ہم ابو جی (امریکہ) کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے  یہ  پاک مسلح افواج  کے بزدل جرنیل  بزدل آرمی چیف صرف اپنی عوام پر ظلم کرسکتے ہیں ان کا جینا دوبھر کر سکتے ہیں انہیں قرضوں کے بوجھ تلے دبا سکتے ہیں  کوئی بنیادی سہولت فراہم نہیں کر سکتے ہیں آئین قانون توڑ سکتے ہیں  زرخیز زمینوں کو اجاڑ سکتے ہیں ہر شہر میں چھاونیوں کے نام پر قبضے کر سکتے ہیں  ڈیفینس کی آڑ میں صنعت وتجارت کر سکتے ہیں عام آدمی کو جب چاہے مار سکتے ہیں سرکاری و نجی ملازمتوں پر برجمان ہو سکتے ہیں    دوسروں کے سامنے اپنی پینٹ اتار دیتے ہیں لیکن ملک کے لیے لڑ نہیں سکتے ہیں  کونسا آرمی چیف ملک کا دفاع کرتے شہید ہوا سپاہی ہی قربانی کا بکرا بنتے ہیں کس سپاہی کو ڈیفینس میں کوٹھی بنگلہ پلاٹ ملا ؟ بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ کون کھاتا ہے ؟ عوام تعلیم صحت کی سہولتوں سے کیوں محروم ہیں؟ عوام پر مہنگائی  ٹیکسوں کا بوجھ کیوں ہے؟ گائوں شہروں کی سڑکیں تاحال  کیوں کچی ٹوٹ پھ

ارض قدس کی پکار

 شام رات میں ڈھلی تو اپنے دامن میں شفق پہ سرخی پھیلاتے سورج اور راہ دکھاتے  ستاروں کے جھرمٹ کو بھی سمو گئی !  افق پہ جگمگاتے یہ تارے ارض قدس کی تازہ شہداء ہیں اور شہداء بھی بھلا کون ؟  شیخ اسماعیل ہانیہ کے تین سعادت مند بیٹے اور انہی کے تین کڑیل پوتے ۔۔۔۔ زھر اگلتی لپلپاتی زبانوں  نے خدا کے اس بندے پہ طعن کیا طنز کیا تضحیک کی کہ دوسروں کو بچوں کو مروانے والے اپنی اولادیں سنبھال کر رکھتے ہیں ہانیہ نے کیسی کیسی باتیں سنیں روح کو گھائل کرنے والے  نشتر زہر آلود زبانوں سے نکلتے رہے ہانیہ زخمی مسکراہٹ کیساتھ سب سنتے رہے یہاں تک حالیہ طوفان الاقصیٰ معرکے میں انکے بیٹوں پوتوں اور نواسی سمیت خاندان کے ساٹھ افراد اسی طرح قربان ہوئے جیسا کہ دیگر قدسی ۔۔۔۔ مشعل و ہانیہ قطر میں رھتے ہیں مگر  کیوں رھتے ہیں یہ جانے بغیر درھم و دینار کے بندے طاغوت کے پرستار اور مادیت کے شرک سے آلودہ اذھان کہتے تھے مشعل و ہانیہ اپنی اولادوں کیساتھ پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں مگر جانتے بوجھتے چپ رھتے کہ شیخ یاسین ارض قدس پہ نشانہ بنے تو پرچم الرنتیسی نے سنبھالا جی وہی شیر دل رنتیسی جس نے کشادہ پیشانیوں والے لاکھوں قدسیوں

شیخ محمود آفندی

 ترکی میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علماء نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دیہات اور گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینی شروع کی  جب وہاں کے لوگ فوج  کو آتے دیکھتے تو فورا بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے  یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے بلکہ کھیتی باڑی میں مشغول ہیں  ان طالبعلم بچوں میں شیخ محمود آفندی نقشبندی صاحب بھی شامل تھے، حضرت نے یوں دینی تعلیم کی تکمیل کی اور فراغت کے بعد یہی سلسلہاپنے گاؤں جاری رکھا ،  اسی دوران حضرت آفندی کے دو خلفاء شہید کیے گیے تو حالات کے تناظر میں حضرت آفندی نے وہاں سے شہر کا رخ کیا جہاں ایک قدیم  مسجد تھی وہاں رہتے ہوئے حضرت  نے چالیس سال تک دین کی تدریس کا کام جاری رکھا۔  تقریبا اٹھارہ سال تک حضرت آفندی کے پیچھے کوئی نماز پڑھنے کیلئے تیار نہیں تھا اٹھارہ سال کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے اور حضرت آفندی سے فیضیاب ہوتے گئے ۔ آج جب اسی مسجد میں اذان ہوتی ہے تو جوق درجوق لوگ نماز کیلئے اس مسجد میں آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں جو حضرت آفندی جیسے علماء کی محنت اور اخلاص کا نتیجہ ہے  - ترکی سے جب خلافت عثمانی