Posts

Showing posts from December, 2024

فوج نہیں تھی

 فوج ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺎﺋﻞ نے ﻟﮍ ﮐﺮ کشمیر ﮐﻮ آزاد ﮐرالیا۔ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ ‏(1971)۔ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﮔﻞ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﭼﻦ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ فوج تھی اور مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرلیا اور جرنیل یہاں سینيٹ چیئرمین کا الیکشن مینيج کرتے رہے۔ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮیکی فوجیﮔﮭﺲ ﮐﮯ ﺍﺳﺎﻣﮧ ﺑﻦ ﻻﺩﻥ ﮐﻮ مار ﮐﺮ اٹھا لے گیا اور یہ سوتے رہ گئے۔ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭیمنڈ ﮈيئوﺱ کو ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ بھجوا دیا ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ بيشمار ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﻗﺘﻞ ﮐﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻓﻮﺝ ﺗھى ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﻞ ﺟﻮﺯﻑ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﻓﻮﺝ تهى ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻓﯿﮧ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﮐﻮ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ کو ﺑﯿﭽﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺘﮕﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ 1 ﻻﮐﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩھ ﻋﻮﺍﻡ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺍؤ ﺍﻧﻮﺭ ﻧﮯ 444 ﭘﺨﺘﻮﻧﻮں ﮐﻮ ﺟﻌﻠﯽ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭ ﺩﺋﮯ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻭﯾﺰ ﻣﺸﺮﻑ ﻧﮯ 4000 ﮨﺰﺍﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯿﻮں ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺑﯿﭻ ديئے ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ APS اﺳﮑﻮﻝ ﭘﺮ انکی سخت سیکورٹی تھی ﻣﮕﺮ 150 ﺑﭽﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﮮ ﮔﺌﮯ۔ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ بین الاقوامی حدود کی کہلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ﻗﺒﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﮈﺭﻭﻥ ﺳﮯ میزائل ﺑﺮﺳﺎتا رہا بيگناھ شہريوں کو مارا۔! ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﮈﺍﻟﺮﻭں ﮐﮯ ﻋﻮﺽ غیرت مند ﻗﺒﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﺩﺭﺑﺪ...

ایوب خان کی کرپشن

 فیڈ مارشل صدر ایوب خان جیسے مطلق العنان حکمران  کی  ہوئی جب کرپشن بے نقاب    فیلڈ مارشل ایوب خان کو چکوال کے نواحی قصبہ خان پور کی شکار گاہ بڑی پسند تھی۔  آپ دوران اقتدار دلجبہ کی خوبصورت پہاڑیوں میں 14 مرتبہ شکار کے لیے تشریف لائے۔ چکوال اس وقت ضلع جہلم کی پسماندہ سی تحصیل تھی۔ جونہی صدر کے شکار کا بگل بجتا، ڈپٹی کمشنر جہلم نوابزادہ یعقوب خان ہوتی محکمہ مال چکوال کو انتظامات کا حکم صادر کرتے اور چکوال کے پٹواری اور تحصیلدار اس مملکت خداداد کی اعلیٰ ترین روایات کے عین مطابق سرکاری فرائض چھوڑ کر اپنی جیب سے وی وی آئی پی شکار اور کھانے کے انتظامات میں جُت جاتے، کیونکہ ماضی ہو یا حال، یہی وطن عزیز کے  آئین اور قانون کا اصل چہرہ بھی ہے اور سرکاری ملازمین کی نوکریوں کی ضمانت بھی۔ کئی دن تک انتظامات کا سلسلہ جاری رہتا، کراچی سے فائیو سٹار ہوٹل کا عملہ آ کر کھانے کا انتظام کرتا اور دیگر دور دراز کے شہروں سے وی  آئی پی فرنیچر، کراکری اور قالین وغیرہ کرائے پر حاصل کیے جاتے۔ صدر ایوب خان لشکرِ رفقا کے جلو میں صبح سویرے پہنچ جاتے، ڈوہمن ریسٹ ہاؤس میں ناشتہ ...

ناقابل فراموش لمحے

 ناقابل فراموش لمحے معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی کے بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی پڑیں گی گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے محلے کا ڈاکٹر ایک ہی سرنج سے ایک دن میں پچاس مریضوں کو ٹیکے لگاتا تھا لیکن مجال ہے کسی کو کوئی انفیکشن ہو جائے یرقان یا شدید سردرد کی صورت میں مولوی صاحب ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔ گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکئے سے خط پڑھواتے تھے ڈاکیا تو گویا گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا ‘ خط لکھ بھی دیتا تھا‘ پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو ’نصر من اللہ وفتح قریب‘ پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ’’اوکے‘ ...

گولی کیوں چلائی؟

 16 دسمبر 1971   کے دن دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ملٹری سرینڈر ہوا۔ یہ بدنما ریکارڈ پاکستانی فوج کے حصے آیا جب ڈھاکہ میں ترانوے ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ ملٹری روایات کے مطابق سرینڈر کے بعد رسم پتلون اتروائی ہوئی اور چشم فلک نے ترانوے ہزار پتلونیں اترتے دیکھیں۔ ہر سال سولہ دسمبر جب بھی آتا تھا، قوم کا سر شرم سے جھک جایا کرتا تھا۔ سات لاکھ کی فوج اسے ننگی نظر آنے لگتی تھی۔ اس ہزیمت سے جان کچھ اس طرح چھڑائی گئی کہ عین اسی دن اے پی ایس کا سانحہ ہوگیا چنانچہ اب میڈیا پر ڈھاکہ کا سرینڈر نہیں آتا بلکہ سانحہ اے پی ایس نظر آتا ہے اور اگرچہ اس میں بچے شہید ہوئے لیکن ہمدردی فوج لینے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ترانوے ہزار پتلونیں یاد رکھیں،  جنرل یحییٰ کی بڑھکیں یاد رکھیں،  جرنیلوں کا ہتھیار پھینکا یاد رکھیں، ہر سال فوج کو اس کا یہ کارنامہ یاد دلاتے رہیں اور پوچھتے رہیں کہ تم پتلونیں چھوڑ کر کیوں بھاگے؟؟؟ تم نے اسلام آباد میں  نہتے پر امن عوام پر گولیاں کیوں چلائیں؟؟؟؟؟