چوری آتش پارے
"بابا جی کوئی کہانی سنائیے۔" سکول کے تین چار لڑکے الاؤ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور اس بوڑھے آدمی سے جو ٹاٹ پر بیٹھا اپنے استخوانی ہاتھ آگ تاپنے کی خاطر الاؤ کی طرف بڑھائے ہوئے تھا، کہنے لگے۔ مردِ معمر نے جو غالباً کسی گہری سوچ میں غرق تھا، اپنا بھاری سر اٹھایا جو گردن کی لاغری کی وجہ سے نیچے کو جھکا ہوا تھا۔ "کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں خود ایک کہانی ہوں، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس کے بعد کے الفاظ اس نے اپنے پوپلے منہ میں ہی بڑبڑائے، شاید وہ اس جملہ کو لڑکوں کے سامنے ادا کرنا نہیں چاہتا تھا جنکی سمجھ اس قابل نہ تھی کہ وہ اس قسم کے فلسفیانہ نکات حل کر سکیں۔ لکڑی کے ٹکڑے ایک شور کے ساتھ جل جل کر الاؤ کے آتشیں شکم کو پر کر رہے تھے۔ شعلوں کی عنابی روشنی لڑکوں کے معصوم چہروں پر ایک عجیب انداز میں رقص کر رہی تھی۔ ننھی ننھی چنگاریاں سپید راکھ کی نقاب الٹ الٹ کر حیرت میں سر بلند شعلوں کا منہ تک رہی تھیں۔ درختوں کے خشک پتے بڑی دلیری سے آگ کا مقابلہ کرتے ہوئے اس شعلہ افشاں قبر میں ہمیشہ کے لئے کود رہے تھے۔ سرد ہوا کے جھونکے کوٹھڑی کی گرم فضا کا استقبال کرتے ہوئے اسکے ساتھ بڑی گرمجوشی سے بغ...